ہندو عورت کا سورۂ فاتحہ پر یقین کا واقعہ

 

This convincing story digs into the uncommon excursion of a Hindu lady who finds comfort and edification through her profound and unfaltering confidence in Surat Fatiha. Set against the scenery of social and strict variety, this story is a real demonstration of the general force, showing the way that one’s otherworldly excursion can rise above limits and encourage a significant association with the heavenly. Follow her way as she explores the intricacies of her confidence, eventually tracking down comfort, strength, and a feeling of solidarity in the stanzas of Surat Fatiha. This story is an honest, impactful investigation of the human soul and the binding together power.

 

عرب کے قبیلے میں ایک غیر مسلم شادی شدہ عورت رہا کرتی تھی۔ اس کا شوہر بہت بڑا بزنس مین تھا۔ ایک مرتبہ اس نے سنا کہ ملک عرب یعنی مکہ میں اللہ کے آخری نبی جو اللہ کے محبوب نبی ہیں۔

ان پر ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ جس کا نام ہے “سورۃ الفاتحہ”۔ جس میں ہر بیماری سے شفا موجود ہے۔ وہ جس پر بھی دم کی جاتی ہے یا پڑھ کر پھونکی جاتی ہے۔ وہ انسان اچھا ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں بے شمار برکات ہے۔

اس میں اب عقیدے کی بات ہے۔ مسلم ہو یا غیر مسلم اللہ پاک جس کے دل میں ایمان کی روشنی ڈالنا چاہے۔ اللہ کی قدرت کا تو آپ سب کو اندازہ ہو گا۔

اب کسی شخص سے اس عورت نے سورۃ فاتحہ سیکھ لی۔ پھر جب اس نے سورۃ فاتحہ کا ترجمہ پڑھا۔ تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ جب بھی یہ سورۃ پڑھتی تھی۔ اللہ تعالی اس کے بگڑے کاموں کو سنوار دیتا۔

ایک دن اس کے بیٹے کو ایک خطرناک زہریلے بچھو نے کاٹ لیا۔ بڑے بڑے حکیموں، طبیبوں کو بلوایا گیا۔ سب نے یہ کہہ کر جان چھڑوا لی کہ اس بچھو کا زہر بہت خطرناک ہے۔ اس بچے کا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ تمہارا یہ بچہ بس کچھ ہی دیر کا مہمان ہے۔

ماں کا رو رو کر برا حال تھا اور شوہر اپنے خداؤں کی عبادت کر رہا تھا۔ ان سے مدد مانگ رہا تھا۔ پھر جب کوئی حل نہیں نکلا۔ تو اس عورت کو یاد آیا کہ سورۃ فاتحہ کے بارے میں اس نے پڑھا ہے کہ اس میں ہر بیماری سے شفا ہے۔

اس کے دل میں خیال آیا کہ اگر میں اسے پڑھ کر اپنے بچے پر دم کروں۔ تو کیا میرا بچہ ٹھیک ہو جائے گا؟ کیونکہ اللہ تعالی نے اس عورت کو ایمان کی طرف لانا تھا۔ اس کے دل میں اسلام کی محبت مزید پیدا کرنی تھی۔ تو اس کی زبان میں تاثیر دے دی۔

جب اس نے اس سورۃ کو پڑھ کر اس جگہ پر دم کیا جہاں بچھو نے کاٹا تھا۔ تو اس کا لڑکا اٹھ کر بیٹھ گیا اور جب اس نے سورۃ فاتحہ کو پانی پر دم کر کے پلایا۔ تو وہ اٹھ کر ایسے کھڑا ہو گیا جیسے کسی بچھو نے کبھی کاٹا ہی نہیں تھا۔

اس کا شوہر دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کسی طبیب نے اور کسی حکیم نے اسے ٹھیک نہیں کیا۔ تو تم نے ایسا کیا عمل کیا۔ جو یہ بچہ ٹھیک ہوگیا۔ اس نے کہا کچھ بھی تو نہیں۔ بس ایک سورۂ ہے۔ جو ہر بیماری کو ٹھیک کر دیتی ہے۔ بس وہ مجھے یاد تھی۔ میں نے پڑھ کر اپنے بچے پر دم کیا اور اس کا پانی پلایا۔

تو دیکھو کیسے ٹھیک ہوگیا ہمارا بچہ۔ اس کا شوہر بجاۓ خوش ہونے کے اس سے ناراض ہوگیا کہ یہ تم کیا جادو ٹونے کر رہی ہو۔ اس کی بیوی کہنے لگی زندہ صحیح سلامت ہے ہمارا بچہ ورنہ ہم سے بچھڑنے والا تھا۔ اس نے کچھ نہ سنا اور اپنی بیوی کو ڈانٹنے لگا۔ کیونکہ اسے اسلام سے نفرت تھی۔

جب اس کی بیوی یہی عمل کرنے لگی۔ تو اس کو اپنی بیوی سے بھی نفرت ہو گئی۔ اب اس نے اس پر ظلم کرنا شروع کر دیا۔ ہر روز اس کو مارتا پیٹتا اور کہتا کہ اب میں نے تیرے منہ سے یہ سورۂ سنی۔ تو یاد رکھنا تیری کھال کھینچ لوں گا۔ اس کو اللہ کے کلام پر بالکل یقین نہیں تھا۔ جبکہ اس کی بیوی کو اللہ کے کلام پر یقین ہو گیا۔

اب اس عورت کو اللہ تعالی نے کس طرح مدد کی یہ بھی بڑا ایمان افروز ہے۔ اس عورت کا شوہر جب گھر سے کام کرنے کے لیے نکلا۔ نکلتے وقت جب اس نے اپنا جوتا پہنا تو اس میں وہی بچھو مجود تھا۔ جس نے اس کے بیٹے کو کاٹا تھا۔ اس کے ڈنگ سے وہ بچہ تو بچ گیا۔ مگر خود نہ بچ سکا۔

کیونکہ جب بچھو نے اس کو کاٹا تو زہر پورے جسم میں پھیل گیا۔ اور تڑپ تڑپ کے وہیں دم توڑ گیا۔ خاندان میں یہ خبر پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ اب شوہر دنیا سے جا چکا تھا۔

شوہر کے مرتے ہی اس کے گھر میں تو نوبت فاقوں تک آ گئی۔ وہ عورت قرض دار ہو کر رہ گئی۔ وہ بہت پریشان تھی۔ دل میں پھر وہی بات آئی کہ میں سورۃ فاتحہ کا ورد کرتی ہوں۔ کیا پتا میری پریشانیاں بھی دور ہو جائیں۔

پھر وہ زور زور سے سورۃ فاتحہ پڑھنے لگی۔ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے سورۃ فاتحہ کا ورد کرتی رہی اور اتنے اعتماد اور یقین سے پڑھتی رہی۔ جس کا کوئی حساب ہی نہیں تھا۔

جب کوئی بندہ اللہ تعالی سے امید لگاتا ہے تو اللہ تعالی اپنے بندوں کی دعاؤں کو رد نہیں کرتا۔ پھر یوں ہوا کہ سات دن کے اندر اندر اس کو خوشخبری مل گئی کہ اس کے کاروبار کو سنبھالنے کے لیے اس کے شوہر کا دوست آ گیا ہے۔

جب دوست کو خبر ملی کہ دوست کی بیوہ کا کوئی سہارا نہیں ہے۔ تو وہ اس کی بیوہ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ فکر نہ کریں۔ وہ میرے بھائی کی طرح تھا۔ میں آپ کی مدد کروں گا اور جو بھی پریشانیاں ہیں وہ سب دور ہو جائیں گی۔

پھر اس شخص نے اس عورت کا سہارا بن کر اس کا پورا کاروبار سنبھال لیا۔ پھر دھیرے دھیرے جیسے زندگی پہلے تھی ویسے ہی ہو گئی۔ اس کے شوہر کے دوست نے اس عورت کو سورۃ فاتحہ پڑھتے ہوئے سن لیا۔ اس نے پوچھا کہ آپ کیا پڑھ رہی ہیں۔

کیا یہ کوئی منتر ہے؟ جس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مجھے بھی سکھائیے! اس پر وہ عورت کہنے لگی یہ کوئی منتر نہیں ہے۔ بلکہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید جو ان کے پیغمبر پر نازل ہوئی ہے۔ یہ اس میں سے ایک سورت ہے۔ جس کا نام سورۃ فاتحہ ہے۔

پھر کہنے لگی مجھے تو اس پر بہت یقین ہے۔ میں نے کسی سے یہ سورہ فاتحہ سیکھ لی تھی اور اب میں چلتے پھرتے یہ سورت پڑھتی رہتی ہوں۔ وہ شخص کہنے لگا کہ آپ مسلمان کیوں نہیں ہو جاتی۔ اگر اتنا ہی اس سورت کو مانتی ہے۔

وہ مزید کہنے لگا کہ ایک سورت کی اتنی تاثیر ہے۔ تو پورے قرآن کی کتنی تاثیر ہوگی۔ وہ عورت کہنے لگی کہ میں مسلمان تو ہو جاؤں۔ لیکن میرا شوہر نہیں مانتا تھا۔

اس شخص نے کہا کہ اب تو آپ کا شوہر بھی نہیں ہے اور ایک سورت کے ساتھ آپ کی محبت دیکھ کر میں اتنا زیادہ متاثر ہوا ہوں کہ میں بھی آپ کے ساتھ مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ ہم دونوں قرآن مجید سیکھیں گے اور ضرور پڑھیں گے۔ وہ کہنے لگی جی! آپ نے بالکل صحیح کہا اور یوں وہ دونوں مسلمان ہوگئے۔

ایمان کو مذہبوں کی پیمائش نہیں کرتی؛ یہ مذہبوں کو پار کر کے دلوں کو جوڑتی ہے

A Hindu Woman’s Faith in Surat Fatiha Story in English

In a little town settled at the foot of the Himalayas, there carried on with a lady named Meera, a faithful Hindu. She was known all through the town for her steady confidence and profound otherworldliness. In spite of being from an alternate strict foundation, Meera was dependably inquisitive about the convictions and practices of her Muslim neighbors.

At some point, another family moved into the town, the Ansaris. Meera was attracted to their glow and generosity. She initiated a relationship with Amina, the oldest little girl of the Ansari family. Amina, thus, was interested by Meera’s commitment to her confidence. They spent numerous evenings sharing stories and customs, figuring out something worth agreeing on in their affection for their families and their networks.

One night, as the sun painted the sky with shades of orange and pink, Amina welcomed Meera to her home for Iftar during the heavenly month of Ramadan. Meera acknowledged the greeting with an open heart. She saw as the Ansari family recounted Surat Fatiha prior to breaking their quick. The pleasant Arabic stanzas reverberated with her, however she didn’t figure out the language. Amina made sense of the meaning of Surat Fatiha and its job in associating with the Heavenly.

Meera left the Ansari family that night with a feeling of marvel. She was unable to shake the inclination that there was a significant thing in the expressions of Surat Fatiha, despite the fact that she was not Muslim. Throughout the next weeks, she started to investigate and dive more deeply into this hallowed part of the Quran. Meera’s journey for understanding took her to the town’s library, where she tracked down interpretations and translations of Surat Fatiha.

She began to integrate Surat Fatiha into her everyday petitions, mixing it with her Hindu ceremonies. Meera’s family was astounded by her newly discovered interest, yet they regarded her otherworldly excursion. The town, as well, started to see her developing association with both her Hindu confidence and her investigation of Surat Fatiha.

As the years passed, Meera’s confidence developed further and more comprehensive. She had turned into an extension between the two strict networks, advancing resilience and understanding. Her story filled in as a demonstration of the force of confidence and the capacity of otherworldliness to rise above strict limits.

Eventually, “A Hindu Lady’s Confidence in Surat Fatiha” was a story of one lady’s excursion as well as an image of the solidarity that can exist between various beliefs when individuals approach each other with open hearts and an eagerness to gain from each other’s customs.

In the account of the Hindu lady’s confidence in Surat Fatiha, the moral could be: “Confidence knows no limits; it rises above religion and joins hearts.”

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here